1 / 30

حیا تیا تی جنگ عھد رفتہ سے لے کر پھلی جنگ عظیم تک

حیا تیا تی جنگ عھد رفتہ سے لے کر پھلی جنگ عظیم تک. لیکچر نمبر 2. ا۔ مقیاسی ترتیب. قبل از سائنس حیا تیا تی جنگ . - سلائیڈ (8-1 ) حیا تیا تی جنگ کاابتدائی استعمال . - سلائیڈ (16-9 ) سائنسی حیا تیا تی جنگ کی شروعوات . - سلائیڈ (20-17 ). حیا تیا تی جنگ کے تاریخی الزامات ب-.

genna
Download Presentation

حیا تیا تی جنگ عھد رفتہ سے لے کر پھلی جنگ عظیم تک

An Image/Link below is provided (as is) to download presentation Download Policy: Content on the Website is provided to you AS IS for your information and personal use and may not be sold / licensed / shared on other websites without getting consent from its author. Content is provided to you AS IS for your information and personal use only. Download presentation by click this link. While downloading, if for some reason you are not able to download a presentation, the publisher may have deleted the file from their server. During download, if you can't get a presentation, the file might be deleted by the publisher.

E N D

Presentation Transcript


  1. حیا تیا تی جنگ عھد رفتہ سے لے کر پھلی جنگ عظیم تک لیکچر نمبر 2

  2. ا۔ مقیاسی ترتیب قبل از سائنس حیا تیا تی جنگ . - سلائیڈ (8-1) حیا تیا تی جنگ کاابتدائی استعمال . - سلائیڈ (16-9) سائنسی حیا تیا تی جنگ کی شروعوات . - سلائیڈ (20-17)

  3. حیا تیا تی جنگ کے تاریخی الزاماتب- تھن ایوبک کا محاصرا (1340) . - تجویز ہے کہ محاصرا انجنوں کے استعمال سے مردہ گھوڑے قعلے کے اندر پھینکے گئے تاکہ محا فظوں کو انخلاء پر مجبور کیا جا ئے کفا کا محاصرا اور بلیک ڈیتھ . - تجویز کیا گیا ہے کہ منگو ل فوج نے طاعون متاثرین کو قعلہ بند کفا کے شھر جینوس میں پھینکا اور زندہ بچ کر بھاگنے والے یورپ میں طاعون لے گئے

  4. ج - تاریخی الزامات لگانے کا معیار (ا) اس کو سیاسی اور تاریخی شعورھونا چاھیے . جانچ کے لئے کافی تفصیل فراھم کی جائے گی . ۔ اس وقت کے سائنسی علم کے حوالے سے قابل عمل مبینہ کارروائی تکنیکی طور پر کی جائے

  5. د ۔ تاریخی الزامات لگانے کا معیار (ب) - وبائی پھوٹ کی رپورٹ معقول نتائج کے طور پر میسر کاروائی میں آئے الزام کے ذرائع واضح طور پر دستاویز کئے جا ئیں . الزام کی حمایت کرنے لئے کچھ ثبوت ھونا چاہیئے .

  6. ھ - فورٹ پٹ 1763(ا) - پو نٹیاک انڈین نے نیویارک سے ورجینیا تک قبائل کو برطانوی فوج کے خلاف بغاوت کے لئے اکھٹا کیا جو کہ برے طریقے سے بڑھی- انڈینز نے 8 قلعوں کو لو ٹا اور بڑی تعداد میں نوآباد باشندوں کو ہلاک یا گرفتار کیا - فورٹ پٹ میں چیچک پھوٹ پڑی - انڈینز کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد ولیم ٹرینٹ شہری ملیشیا کے کمانڈر نے اپنے جریدے میں دلچسپ تحریریں کیں

  7. و - فورٹ پٹ 1763 (ب) ٹرینٹ کے جرید ے کے مطا بق . - ” ۔ ۔ ۔ ان کے تفکر میں ہم نے ان دو کمبل اور ایک رومال دیا - چیچک کے ھسپتال سے باھر -مجھے امید ہے کہ اس کے مطلوب اثرات ھوں گے ۔ ۔ ۔ ۔” فورٹ کمانڈر کے کلیات نامے کے مطا بق . - ” متفرقات کو حاصل کرنے کے لئے اسپتال سے حاصل شدہ کو انڈین کو دیا گیا تاکہ چیچک منتقل کی جائے ۔ ۔۔ ۔ ” - دو کمبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔20/ پر - ایک سلک کا رومال 10/& ایک لیلن کا 3/6 ۔ ۔ ۔ ۔ 0 ۔ ۔ ۔ ۔13۔۔6” ₤2. . 0 …o

  8. ز ۔ چیچک حیاتیا تی ہتھیار کے طور پر (ا) - وبا سے امریکی انڈین قبائل سے پچاس فیصد سے زیادہ ھلاک ھوئے - جینر 1796 کی وضاحت کے مطابق کاؤپاکس کی آلودگی نے چیچک سے محفوظ کر دینے پر ویکسینیشن کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا - ڈبلیو ایچ او کی عالمی مہم 77-1967 نے بیماری جڑ سے اکھاڑ دی اور بچاؤ کے ٹیکوں کا عمل عام طور پر استعمال میں نہیں رہا

  9. ح - چیچک حیاتیا تی ہتھیار کے طور پر (ب) - متعدی خوراک کم تھی اور ایک متاثرہ بیماری سے زیادہ سے زیادہ 20-10 افراد میں پھیلی - ارتکائی مدت 12 سے 14 دن ھو گی اور کچھ مزید دن جسم کے پر دھپڑ کے نشانات اتنے امتیازی تھے کہ چیچک کی تجویز دی جا سکے - آج کی زیادہ آبادی قوت مدافعت کھو چکی ہے

  10. ط ۔ کوچ کی تجاویز - جرثومہ بیماری کی حالت میں ضرور موجود ھے اور صحت مند عضویہ سے غیر حاضر - مشتبہ جرثومہ کو الگ کرنا ضروری ھے اور خالص ماحول میں پروان چڑھتا ھے - بیماری تب ھوتی ھے جب ایک جرثومہ کو صحت مند میزبان میں داخل کیا جائے - وہی جرثومہ بیمار میزبان سے پھر الگ ہونا چاہیے

  11. ی - جرثومیات کا سنہری دور - اینتھریکس 1876 - گلینڈرز 1882 - بروسیلوسیس 1887 - طاعون 1894 - بوٹیولینم ٹوکسن 1896 - ٹیولاریمیا 1912 - اس سنہری دور میں کچھ متعدی امراض کو جرثومی وجوہات سے منسلک کیا گیا

  12. ک - حیاتیاتی جنگ پھلی جنگ عظیم میں (ا) - جنرل اسٹاف کی ہدایت کے مطابق جو شاید اس سے قبل صرف انسان مخالف حیاتیاتی جنگ کو روکنے والے معاہدوں کو دیکھتا تھا - حیاتیاتی تخریب کاری امریکہ میں ایک بڑی مہم کا حصہ تھی جس کا مقصدقیمتی سامان جنگ کی روانی میں رکاوٹ ڈالنا تھا - اس مہم میں مرکزی شخصیت ایک ڈاکٹر اینٹن ڈلگر تھا جو امریکہ میں پیدا ہوا اور اسکے والدین جرمن تھے لیکن اس نے اپنی زیادہ زندگی جرمنی میں گزاری - برطانوی محاصرہ کی وجہ سے امریکہ میں پھنسے ہوئے جرمن ملاھوں نے کاشت شدہ ایجنٹس گھوڑوں میں داخل کئے - جرمنی نے ایک بڑے پیمانے پر سبوتاژ مہم مخالف اتحادی فوجیوں کے خلاف شروع کی جیسے گلینڈرز اور اینتھریکس ایجنٹ استعمال کرتے ھوئےقیمتی گھوڑ سوار فوج اور کھینچنےوالے جانوروں کو روکنے کی کوشش مہم یہ تھی:

  13. ل - حیاتیاتی جنگ پھلی جنگ عظیم میں (ب) - جرمن تخریب کاری مہم میں رومانیہ تک بھی توسیع ھوئی جب رومانیہ1916 میں اتحادی طاقتوں میں شامل ھوا تو کچھ حیاتیاتی کاشت دریافت ھوئیں - گھوڑوں اور کھینچنے والے ھرن پر حملے کے لئے ناروے میں بھی آپریشن کئےگئے- باریک ٹیوبز میں دبی اینتھریکس چینی کی کیوبز میں ڈال کر جانوروں کو کھلائی جاتیں - حیرت سے حال ھی میں ان میں سے چینی کی ایک کیوبز پولیس کے عجائب گھر میں دریافت ھوئی اور جدید پی سی آر طریقے سے بیسیلس اینتھریکس کی شناخت ھوئی - ارجنٹینا سے امدادی سامان سبوتاژ کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں - اس بارے میں کم جانچ ھے لیکن فرانس نے بھی مغربی محاز پر اسی طرح کی جانور مخالف مہم کیں

  14. م ۔ اینتھریکس حیاتیاتی جنگ کےایجنٹ کے طور پر (ا) - زندگی کی گردش میں شکار عموما” چارہ خور مویشی کے اندر روئندہ نشونما بھی شامل ھے جب تک کہ زہر موت واقع نہ کرے - پھر جب جانور مر جائے تو ماحولیاتی تذلیل کے خلاف تخمک بن جاتا ہے جب تک یہ اگلے شکار میں داخل نہ ہو جائے - حقیقتا” تخمک ماحولیاتی تزلیل کو روکتے ھیں اور اتنے مہلک ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے اینتھریکس ایک بھترین حیاتیاتی ہتھیار ھے - بیسیلس اینتھریکس آکسیجن خور ، گرام پوزیٹیو ،تخمک تشکیل،غیر متحرک خاص خصوصیات کے ساتھ حیاتیاتی ہتھیارکار کی ایک قسم ھے :

  15. ن ۔ اینتھریکس حیاتیاتی جنگ کےایجنٹ کے طور پر (ب) - 1979 میں سورڈلووسک کی ایک فوجی سہولت سے اینتھریکس کی حادثاتی چھوٹ کے نتیجے میں سے 79 بیمار اور 68 اموات ھوئیں اس طرح اینتھریکس کی خطرناک فطرت کی تاکید ھوتی ھے - اینتھریکس کے تخمک پھَیپھڑوں میں داخل ہوتے ھیں اور مائیکروفیجز کے زریعے غدودوں میں منتقل ھو جاتے ھیں۔ اگاؤ کا عمل 60 دن لے سکتا ھے لیکن ایک مرتبہ اگاؤ شروع ھو جائے تو مرض بہت تیزی سے بڑھتا ھے

  16. س - اینتھریکس حیاتیاتی جنگ کےایجنٹ کے طور پر (ج) - اعداد و شمار سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ 50 ایل ڈی (وہ مقدار جو پچاس فیصد آشکار لوگوں کے مرنے کے لئے کافی ھے) 2500 سے 55000 سانس کے اینتھریکس تخمک ھیں - زھریلا ھونے کے لئے اینٹی فیگو سائٹک کیپسول اور تین جرثومہ اجزا, (پروٹیکٹیو اینٹیجن، لیتھل فیکٹر، اوڈیما فیکٹر) کی موجودگی درکار ھے

  17. ع - اینتھریکس حیاتیاتی جنگ کےایجنٹ کے طور پر (د) - اینتھریکس کے تخمک 37 ڈگری سیلسیس پر عام زریعے سے اور کافی خصوصیات کی موجودگی کے ساتھ آسانی سے بڑھ سکتے ھیں اگرچہ اس کو شناخت کرنا آسان ہے ، کچھ جدید ما ئیکرو بیالوجسٹ اسکا سامنا کریں گے ۔ اس مرض کی ابتدائی علامات غیر مخصوص تشخیصی مشکلات ھیں - تخمک کے پھوٹنے کے بعد انفیکشن بہت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے تو مریص کو بچا نے کے لئے مؤثر جَراثیم کُش ادویات کا جلد استعمال ضروری ہے - اینتھریکس کے خلاف حفاظتی ٹیکے ممکن ھیں لیکن یہ منصوبھ پوری ابادی کے لئے عملی نہیں ھے - ہوائی اینتھریکس کے حملے کے بعد انسداد آلودگی ایک مشکل عمل ہے جسکا مشاہدہ 2001 میں امریکہ میں چھوٹی مقدار کے ‘ اینتھریکس خطوط ‘ سے ہوتا ہے

  18. ف ۔ جنیوا پروٹوکول 1925 - پہلی عالمی جنگ سے قبل معاہدوں کے سلسلے نے زہریلے ہتھیاروں پر کچھ پابندیاں لگا دیں - جنگ کے بعد اقوام کے اتحاد میں مزید پابندیوں پر بحث ھو ئی - ان پابندیوں میں خاص طور پر کیمیائی ہتھیاروں پر توجہ دی جس کی وجہ جنگ میں بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال تھا - 1925 میں پولینڈ کی طرف سے دلائل سے یقینی بنایا گیا کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال جنیوا پروٹوکول 1925 میں شامل تھا

  19. ص - جنگ کے بعد فرانسیسی حیاتیاتی جنگ کی تیاریاں (ا) - ”۔۔۔۔ نہ صرف ایک تفصیلی افہام و تفہیم کے جذبے اور وجہ کو سمجھنے میں مدد دیتی ھے جو فرانس کے توسیع پروگرام کے پیچھے تھا بلکہ کام کرنے کی ایک سائنسی بنیاد بھی فراہم کرتی ھے ” - ” ۔ ۔ ۔ تجویز پیش کی ( حیاتیاتی ہتھیار ) مناسب ھونگے- خاص طور پر تنظیم سازی کے دنوں میں ، شہری آبادی کے خلاف اہداف میں ، شہری مراکز، فوجی تیاری کے مراکذ ، بیرکوں ،اسٹیشنوں، فیکٹریوں یا صنعتی جہگوں پر ۔ ۔ ۔۔ ” - حیاتیاتی جنگ کی تشویش 1922 ء کی ٹریلینٹ رپورٹ کی طرف لے گئی ”جنگ میں حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال ۔ ” یہ:

  20. ق ۔ جنگ کے بعد فرانسیسی حیاتیاتی جنگ کی تیاریاں (ب) - ” ۔ ۔ ۔ ۔ جراثیمی یماریوں کا تجزیعی جائزہ لیا جنکا فوجی کردار ھو اور فھرست بنائی جو استعمال ھوں سکیں، ۔۔۔۔ زرد بخار، --- طاعون، ----بروسیلوسز، ۔۔۔۔ منہ اور کھر کی بیماری ۔ ۔ ۔ ” - ” عملی کام کے جز کی رپورٹ نے ٹریلینٹ کے نتیجے پیش کئے نمائندہ جراثیمی کی فضائی منتقلی اور ان پر مختلف عوامل کا اثر ۔ ۔ ۔ ” - ” ۔ ۔ ۔ ۔ ٹریلینٹ نے زور دیا کہ لیبارٹری ٹرائلز نے ظاھر کیا کہ یہ ممکن تھا کہ مصنوعی حیاتی بادل بنائے جائیں قدرتی بادلوں کی تمام خصوصیات کے ساتھ ۔ ۔۔ ” - ٹریلینٹ رپورٹ :

  21. ر ۔ جنگ کے بعد فرانسیسی حیاتیاتی جنگ کی تیاریاں (ج) - ” ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ کیا گیا کہ تحقیق کا رخ جہاز کے ذریعے خاص اجزاء ( جراثیمی کلچر ) کے ساتھ دھماکا خیز بم کیطرف کیا جائے- اس کا مقصد ایک آلہ تیار کرنا تھا جس کے زمین پر تڑخنے کے اثرات ۔ ۔ ۔ ۔جراثیم ۔ ۔ ۔ پر مشتمل بادل پیدا کرنا ہوں گے مرض زایانہ اثرات بنانے کی ۔ ۔ ۔ صلاحیت کے ساتھ ۔ ۔۔ ۔ ” - ” ۔۔ ۔ ۔اکتوبر 1926 میں مکمل جانچ کی گئی ۔ ۔ ۔ نیوی کے آبی ہوائی جہاز سے نو بم گرائے گئے ۔ ۔۔ ۔ ان تجربات کے نتائج نہ صرف پسندیدہ تھے بلکہ بہت اہم علمی اعداد و شمار کا جواز بھی ممکن ھوا ۔ ۔ ۔” ۔ ” 1925 کے موسم خزاں میں وزارت جنگ :

  22. نمونہ سوالات ا۔ اس خیال کا تنقیدی جائزہ لیں کہ تاریخی ریکادڑ میں حیاتیاتی جنگ کی بہت سی مثالیں ہیں ” جراثیم ” کی وبائی بیماریوں کی وجہ ہونے کی ” سائنٹیفک سمجھ بوجھ ” سے قبل ب- چیچک کیسے خطرناک ہوگا اگر یہ آج حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ج۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمن کی افراد-مخالف حیاتیاتی سبوتاژ مہم یا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان فرانس کے جارحانہ جنگی پروگرام کے اہم مراحل بیان کریں د۔ جنیوا پروٹوکول 1925 کیا ہے ? اس نے کیسے حیاتیاتی جنگ کو ڈھانپا اور آج اس کی کیا حیثیت ہے

  23. References (Slide 1) Geissler, E., and van Courtland Moon, J. (Eds.), (1999) Biological and Toxin Weapons Research, Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. (Slide 2) Horrox, R. (ed.), The Black Death (Manchester University Press: Manchester, 1994), pp. 14-26. p. 17. Cited at pp. 14 in Wheelis, M. (1999) ‘Biological Warfare before 1914’, In Geissler, E., and van Courtland Moon, J. (2001) Biological and Toxin Weapons Research,Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & BiologicalWarfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. pp. 8-34.

  24. (Slide 3) • Barnes-Svarney, P. (1995) The New York Public Library Science Desk Reference, New York: Macmillan (Slide 5) • Volwiler, A. T. (ed.), ‘Willium Trent’s Journal at Fort Pitt, 1763’, Mississippi Valley Historical Review, vol. 11 (1924), pp. 390-413. Cited at p. 22 in Wheelis, M. (1999) ‘Biological Warfare before 1914’, In Geissler, E., and van Courtland Moon, J. (2001) Biological and Toxin Weapons Research, Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. pp. 8-34. (Slide 6) • Wheelis, M. (1999) ‘Biological Warfare before 1914’, In Geissler, E., and van Courtland Moon, J. (2001) Biological and Toxin Weapons Research, Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. pp. 8-34.

  25. (Slide 7) • Henderson. D. A., Inglesby, T. V., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Jahrling, P. B., A. M., Hauer, J., Layton, M., McDade, J., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., and Tonat, K. (1999) ‘Smallpox as a Biological Weapon Medical and Public Health Management’, in JAMA 281(22), pp. 2127-2137 (Slide 10) • Inf.1 Inglesby, T. V., Dennis, D. T., Henderson. D. A., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Fine, A. D., Friedlander, A. M., Hauer, J., Koerner, J. F., Layton, M., McDade, J., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., Schoch-Spana, M., and Tonat, K. (2000) ‘Plague as a Biological Weapon: Medical and Public Health Management’, in JAMA 283(17), pp. 2281-2290

  26. Inf.2 Arnon, S. S., Schecter, R., Inglesby, T. V., Henderson. D. A., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Fine, A. D., Hauer, J., Layton, M., Lillibridge, S., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., Swerdlow, D. L., and Tonat, K. (2001) ‘Botulinum Toxin as a Biological Weapon: Medical and Public Health Management’, in JAMA 285(8), pp. 1059-1070 • Inf.3 Dennis, D. T., Inglesby, T. V., Henderson. D. A., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Fine, A. D., Friedlander, A. M., Hauer, J., Layton, M., Lillibridge, S., McDade, J., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., and Tonat, K. ‘Tularemia as a Biological Weapon: Medical and Public Health Management’, in JAMA 285(21), pp. 2763-2773

  27. (Slide 11) • NAS Record Group 76, Records of the Mixed Claims Commission, Entry 29 (Record Relating to the Sabotage Claims Filed with the Commission), Box 3, ‘Memorandum re Carl Dilger with specific respect to the records as it existed at the time of the decision of October 16 1930’, 12 Nov. 1935, p. 4. Cited at pp. 41-42 in Wheelis, M. (1999) ‘Biological Sabotage in World War I’, In Geissler, E., and van Courtland Moon, J. (2001) Biological and Toxin Weapons Research, Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. pp. 35-62.

  28. (Slide 12) • Redmond, C., Pearce, M. J., Manchee, R. J., and Berdal, B. P., (1998) Deadly Relic of the Great War’, in Nature 393. pp. 747-748. Available from http://www.nature.com/nature/journal/v393/n6687/full/393747a0.html (Slide 13) Inglesby, T. V., Henderson. D. A., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Friedlander, A. M., Hauer, J., McDade, J., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., and Tonat, K. (1999) ‘Anthrax as a Biological Weapon: Medical and Public Health Management’, in JAMA 281(18), pp. 1735-1745

  29. (Slide 14) • Meselson, M., Guillemin, J., Hugh-Jones, M., Langmuir, A., Popova, I., Shelokov, A and Yampolskaya, O. (1994) ‘The Sverdlovsk Anthrax Outbreak of 1979’, Science 266, pp. 1202-1208. Available from http://www.sciencemag.org/cgi/content/abstract/266/5188/1202 (Slide 15) • Inglesby, T. V., Henderson. D. A., Bartlett, J. G., Ascher. M. S., Eitzen, E. M. Jr., Friedlander, A. M., Hauer, J., McDade, J., Osterholm, M. T., Toole, T. O’., Parker, G., Perl, T. M., Russel, P. K., and Tonat, K. (1999) ‘Anthrax as a Biological Weapon: Medical and Public Health Management’, in JAMA 281(18), pp. 1735-1745 (Slide 16) • Los Angels Times (2002) Contractors’ Cost Overruns from Anthrax Cleanup: $50 Million, 11 September. p. A-33 in printed edition [Online] Available from http://articles.latimes.com/2002/sep/01/nation/na-anthrax1

  30. (Slide 17) • Mierzejewski, J. W., and van Courtland Moon, J. E. (Eds (1999) ‘Poland and Biological Weapons’, in Geissler, E., and van Courtland Moon, J. E. (Eds,). (1999) Biological and Toxin Weapons Research, Development and Use from the Middle Ages to 1945 (SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies No. 18). Oxford: Oxford University Press. pp. 63-69. (Slide 18) • Lepick, O. (1999) French activities related to biological warfare, 1919-45. In: Geissler, E. and van Courtland Moon, J. (eds.) Biological and Toxin Weapons: Research, Developmentand Use from the Middle Ages to 1945. SIPRI Chemical & Biological Warfare Studies, no.18. Oxford: Oxford University Press.

More Related