E N D
سورة الملك کا تعارف مکی سورة ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے 67 نمبر پر ہے سورة الملك کے کئی نام ہیں: الملک: اللہ تبارک و تعالی کی بادشاہت کا حال بیان کیا گیا تبارک: سورة کا آغاز اس لفظ سے ہوا ہے۔ نبیﷺ نے یہ نام بھی دیا ہے۔ المانعة: روکنے والی المنجية: نجات دینے والی الواقية: بچانے والی المجادلة: پڑھنے والے کے لیے جھگڑا کرنے والی
سُورة المُلك کے فضائل • سورۃ الملک کی فضیلت میں جامع ترمذی میں ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: قرآن مجید کی ایک سورت ہے جس کی تیس آیات ہیں، وہ آدمی کی اس وقت تک سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے، اور وہ ہے سورت تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ المُلْكُ • نسائی میں ابن مسعودؓسے مروی ہے: جو شخص سورۃ الملک ہر رات پڑھے تو اللہ تعالی اس سے عذاب قبر کو روک لے گا، اور ہم رسول اللہﷺکے زمانے میں اسے مانعہ [یعنی روکنے والی]کہتے تھے، اور یہ قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جو اسے ہر رات پڑھ لے تو وہ بہت زیادہ اور اچھا عمل کرتا ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓفرماتے ہیں کہ جب بندہ قبر میں جاے گا توعذاب اس کے قدموں کی جانب سے آۓگا تو اس کے قدم کہیں گے تیرے لیے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ رات میں سورۂ ملک پڑھا کرتا تھا ، پھر عذاب اس کے سینے یاپیٹ کی طرف سے آئے گا تو وہ کہے گا کہ تمہارے لئے میری جانب سے کوئی راستہ نہیں کیو نکہ یہ رات میں سورۂ ملک پڑھا کرتا تھا ،پھر وہ اس کے سر کی طرف سے آے گا تو سر کہے گاکہ تمہارے لئے میری طرف سے کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ رات میں سورۂ ملک پڑھا کرتا تھا ، تو یہ سورت روکنے والی ہے ،عذاب قبر سے روکتی ہے ، توراۃ میں اس کا نام سورۂ ملک ہے جو اسے رات میں پڑھتا ہے بہت زیادہ اوراچھا عمل کرتا ہے۔ (المستدرک)
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ کسی صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ قبر ہے ، پس اچانک اس نے سنا کہ کوئی انسان اس قبر میں سورة الملك پڑھرہا ہے یہاںتک کہ اس نے سورت ختم کردی۔ وه صحابی نبيﷺکے پاسآئے اور عرض کیا يا رسول الله : میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اور مجهے معلوم نہیں تھا کہ وه قبر ہے، میں نے سنا کہ ایک انسان سورة الملك پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اس نے سورت ختم کردی ، رسول اللهﷺنے ارشاد فرمایا کہ یہ (سورت) عذاب قبر کو روکنے والی ہے اور عذاب قبر سے نجات دینے والی ہے۔ سنن الترمذي، كتاب فضائل القرآن
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انهوں نے ایک شخص سے فرمایا کہ کیا میں تجهے ایسی حدیث تحفہ نہ کروں جس سے تو خوش ہو ؟ اس شخص نے کہا کیوں نہیں اے ابن عباس الله تجهہ پر رحم کرے تو ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ پڑھ اور اس کو زبانی یاد کر ، اور اس کو اپنے گهر والوں کو اور اپنی سب اولاد کو اور اپنے گهر کے اور پڑوس کے بچوں کو سکهاو، بے شک وه نجات دینے والی ہے ، وه قیامت کے دن اپنے رب کے پاس اپنے پڑهنے والے کے لیئےجهگڑا کرنے والی ہے ، اور اپنے رب سے اپنے پڑهنے والے کے لیئے جهنم کی آ گ سے نجات طلب کرتی ہے ، اور اپنے ساتھی کو عذاب قبر سے نجات دیتی ہے۔
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایا کہ: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ ( یعنی سورت) میری امت کے ہر إنسان کے دل میں ہو ۔ تفسير ابن كثير » تفسير سورة الملك » فضل سورة الملك حضرت سیدنا انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن کریم میں ایک سورت ہے جو اپنے قاری کے بارے میں جھگڑا کرے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کرا دے گی اور وہ یہی سورہ ملک ہے۔ ترمذی (2892) میں ہی سیدنا جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ : نبیﷺ اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک سورۃ سجدہ اور سورۃ الملک نہ پڑھ لیں۔
سورت کا مرکزی مضمون • خدا اور آخرت سے غافل انسانوں کو چونکا دینا ہے۔ • آخرت اور اللہ تعالیکیعظمت و قدرت کا پیغام دینا ہے۔
آیت 1: تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
تبارك کے مختلف معنی ہیں: ب ر ک: اس کےدو مصدر ہیں برکة : فراوانی، کثرت اور اضافت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ بروک : ثبات، بقا، پائیداری اور لزوم کا مفہوم ہے۔ بَرَکَ البعیر سے مشتق ہے یعنی اُونٹ کسی جگہ جم کر اور ایک خاص ہیئت کے ساتھ بیٹھا۔ تبارک کے اندر مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
کمالفراوانی، بھلاﰃ کانازل ہونا اور اس کی خیر کاہمیشہ قائم رہنا بلندی و عظمت ، بزرگی میں بڑھنا ، تقدس وپاکییزگی ابن القیمؒکا فرمان ہے: جہاں تک تبارك کا تعلق ہے تو یہ لفظ صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے۔ مخلوق کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا۔ • حرف ت کی زیادتیکیوجہ سےاس میں شدت آ گئ ہے۔ یعنی بہت زیادہ خیر پہنچانے والا • اللہ تعالیکیطرف منسوب ہر چیز با برکت ہوتی ہے۔ بیت اللہ،رسول اللہ, دین اللہ , کتاب اللہ • جس چیز میں اللہ تعالیبرکت رکھ دیںوہ بھیبابرکت ہوجاتی ہے۔ مکہ( إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ) , مسجد اقصی( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ۔۔) • مخلوق میں برکت کی اصل source اللہ کی ذات ہے۔ مخلوق صرف ذریعہ ہے۔
برکت اور تبرک کا لغوی معنیٰ و مفہوم • عربی زبان کی خاصیت ہے کہ اس کے ہر کلمہ میں ایک حرف کا بھی اضافہ یا کمی کرنے سے معنیٰ میں بہت حد تک فرق آ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال ’’برکت‘‘ اور ’’تبرک‘‘ کے معنی میں درپیش ہے۔
برکت کا حصول • قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذوات، چیزوں اور مقامات کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی خیر و برکت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اشیاء سے برکت و رحمت اور سعادت چاہنا اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا تبرک کے مفہوم میں شامل ہے۔ البتہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ • صحابہ کرام نبی ﷺ کے وضو کے پانی سے برکت حاصل کرتے تھے لیکن ان کے علاوہ کسی اور سے ایسا کرنا صحابہ کے فعل سے ثابت نہیں۔ • حضرت ابو بکرؓ کے گھرانے کو اللہ سبحان تعالی نے لوگوں کے لیے باعث برکت بنایا.
• برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے ۔ مفہوم حدیث رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:اَللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِيْ فِيْ بُكُوْرِهَا (یا اللہ! میری امت کیلیے صبح کے وقت میں برکت فرما دے) جتنا تقوی، اخلاق، اخلاصاور لوگوں کو فائدہپہنچانے کی صلاحیت ہوگیاساعتبار سے برکت ہوگی۔ مخلوق میں برکت سےمراد ان سے خیر پہنچنا ہے۔ جگہ میںبرکت سےمراد اس جگہ سےلوگوں کو خیر پہنچنا ہے۔ گناہوں کی زیادتی اوراللہ کےذکر سےغفلت نحوست کا باعث۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:ليست البركةُ من الكثرة، ولكنَّ الكثرةَ من البركة( کثرت کی وجہ سے برکت نہیں ہوتی بلکہ برکت کی وجہ سے کثرت ہوتی ہے) حضرت ابوہریرۃؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سنت یہ نہیں ہے کہ بارش ہونا بند ہو جائے بلکہ سنت یہ ہے کہ بارش تو ہو لیکن وہ تمہارے لیے باعث برکت نہ ہو۔‘‘ رواه مسلم.
افعال واقوال سے برکت کا حصول اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، حضور نبی اکرمﷺپر درود پڑھنا، تلاوتِ قرآن کرنا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا، روزہ افطار کرانا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، کسی نفس کی حاجت پوری کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا، تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا، سچ بولنا، ایفائے عہد کرنا مکان سے برکت کی حصول بابرکت مقامات میں روئے زمین کی تمام مساجد، خصوصاً مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ قباء اور بعض مقدس شہر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام اور یمن شامل ہیں۔
زمان سے تبرک شریعت کی طرف سے امتِ مسلمہ کو بعض متبرک اوقات اور لمحات بھی نصیب ہوئے ہیں۔ ان میں ماہِ رمضان المبارک، آخری عشرہ کی پانچ طاق راتیں، شبِ قدر، ہر رات کا آخری تہائی حصہ، یومِ جمعۃ المبارک، پیر کا دن، جمعرات کا دن، ذوالحجہ کے دس دن، عیدالفطر، عیدالاضحی کا دن، یومِ عاشورہ کھانے پینے کی اشیاء سے تبرک بعض کھانے پینے کی اشیاء بھی ایسی ہیں جن کو اسلام میں دیگر اشیاء سے متبرک مقام حاصل ہے۔ مثلاً زیتون کا تیل، دودھ، شہد، کھجور، کلونجی، زمزم کا پانی
الملک کے مفہوم کی وضاحت • حکومت کرنا, اقتدار و اختیار ہونا • وہ ذات جس کےہاتھ میں آسمان و زمین پوری کائنات کی بادشاہت ہے • تقدیر، کونی اور شرعیاحکامات سب اللہ تعالی کے تابع ہیں • نبوت کی بادشاہت بھی اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا کرۓ • اللہ تمام مالکوں کا مالک ہے • جباپنیملکیت کا زعم نہیںرہتا تو انسان ہر چیزکو احتیاط سےاستعمال کرتا ہے • اللہ کیملکیت پریقینانسان کو مطمین رکھتا کہ مجھ سے کوﰃ نعمتچھین نہیںسکتا اور نہ ہی اسےاپنا کمال سمجھتا ہے
اللہ تعالی کی بادشاہت قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ آل عمران:26 • نبی ﷺفرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں غرور کرنے والے؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا (جو داہنے کے مثل ہے اور اسی واسطے دوسری حدیث میں ہے کہ پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زور والے؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے؟صحيح مسلم:2788
ابوذر غفاریؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:”اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اسےتمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت سے نواز دوں، پس تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، پس تم مجھ ہی سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سواۓ اس کے جسے میں لباس پہناؤں پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔
اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں پس تم مجھ ہی سے بخشش مانگو، میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کی رسائی مجھے نقصان پہنچانے تک نہیں ہو سکتی کہ تم مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہو سکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات, تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ کمی نہ کرے گا۔
اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ،اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات، ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور سب مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب کردہ چیز دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی سوائے ایسے جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبونے کے بعد (پانی میں) کمی کرتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں شمار کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے علاوہ پائے تو وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔
وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ • کامل قدرت
آیت 2: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ﴾
اللہکی قدرت کیسب سےبڑی دلیل: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ • زندگی اور موت پر کسی دوسرے کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ • موت زندگی پرمقدم ہے کیونکہہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اسی کے فیض سے پردۂ عدم سے عالم وجود میں آئی ہے، وہ نہ چاہتاتو کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔ • عدم کے بعد زندگی اور زندگی کے بعد پھر موت اس بات کی شہادت ہے کہ اس دنیا کا کارخانہ بے مقصد نہیں ہے۔اگر ایسا ہو تو یہ ایک کارعبث ہوگا جو ایک حکیم و قدیر اور بافیض ہستی کی شان کے خلاف ہے۔
موت کی حقیقت • موت تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے۔ • موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ • موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس سے اللہ تعالی کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اسکا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے۔ • حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:اُذْکُرُوا ہَاذِمَ اللَّذَّات • ایک روایت میں ہے: اَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ۔لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ ‘‘ (ترمذی)۔
ابودرداءؓسے مروی ہے وہ کہتے ہیں: "نصیحت کیلیے موت اور توڑنے کیلیے زمانہ کافی ہے، آج گھروں میں تو کل قبروں میں رہو گے" سرکار دو عالمﷺ کے سامنے کسی شخص کی تعریف بیان کی گئی تو آپﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ موت کو یاد کرنے میں ا س کا حال کیاہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ ہم نے اس سے موت کا زیادہ ذکر نہیں سنا،پھر آپﷺ نے پوچھا کہ وہ اپنی خواہشات کو چھوڑتا ہے یا نہیں؟اس پر لوگوں نے عرض کیا کہ وہ دنیا سے حسب خواہش فائدہ اٹھاتاہے۔یہ سن کر اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی اس تعریف کا مستحق نہیں ہے ۔جو تم اس کے متعلق بیان کر رہے ہو۔
موت بھی مخلوق ہے • رسول اللہﷺے فرمایا: قیامت کے دن موت ایسے مینڈھے کی صورت میں لائی جائے گی، جو چت کبرا ہوگا۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے بہشت والو! وہ گردن اٹھائیں گے اور اِدھر اُدھر دیکھیں گے تو وہ (فرشتہ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے، ان سب نے (اپنے مرتے وقت) اسے دیکھا تھا (اس لیے پہچان لیں گے) پھر وہ پکارے گا کہ اے دوزخ والو! وہ بھی گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ (فرشتہ) کہے گا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے، ان سب نے بھی (مرتے وقت) اسے دیکھا تھا پھر اسی وقت موت ذبح کر دی جائے گی اور وہ (فرشتہ) کہے گا: ’’اے اہل جنت! تم اب ہمیشہ جنت میں رہو گے، تم میں سے کسی کو موت نہیں آئے گی اور اے اہل دوزخ! تم اب ہمیشہ دوزخ میں رہو گے تم میں سے بھی کسی کو موت نہیں آئے گی۔‘‘ (تب اس وقت جہنمی حسرت کریں گے) پھر (رسول اللہﷺنے) یہ آیت پڑھی: ’’اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا جس دن سارے معاملہ کا فیصلہ ہوگا اور وہ غفلت میں ہیں او رایمان نہیں لاتے۔ مریم 31
زندگی کی حقیقت • وَمَا ھَذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ • وَمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ • اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ • نبیﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی مثال بس اتنی سی ہے جیسے تم میں کوئی شخص اپنی انگلی دریا کے پانی میں ڈالے اور غور کرے کے انگلی کے ساتھ کتنا پانی لگتا ہے۔رواہ امام مسلم • زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے..... سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
موت و زندگیکو کیوں پیدا کیا تاکہ: لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا • ان کی تخلیق میں عظیم مصلحت کار فرما ہے اور وہ یہ کہ انسان کو دنیا میں امتحانی زندگی سے گزارا جائے۔ • اس امتحان کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں لوگوں کو ازسرنو زندہ کرے، ہر شخص کی نیکی اور بدی کا حساب ہو اور وہ اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے۔
زندگی ایک امتحان ہے • وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ هود 7 • وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الأرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ الانعام 165 • وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَات﴾ البقرة 155 • إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا﴾ الكهف 7 • وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً﴾ الانبیاء 35
آزماﺋش کےاہداف • یہ آزماﺋش کبھی شناخت کےلئےہوتی ہے۔ لیکن اللہکا جو امتحان ہوتا ہےوہ اس معنی میں نہیں ہے۔ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِين﴾ العنکبوت 3 • یہ آزماﺋش کبھی اتمام حجت کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی خود امتحان لینے والے کے لئے کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ • آزماﺋش اس بندے کی پرکٹس کے لئے ہوتی ہے۔تاکہ اس بندے کے اندر موجود صلاحیتیں ظاہر ہو جائیں۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ﴾سوره محمد 31
احسن عمل کیا ہے؟ نیک عمل دوطرح سےانجام پاتاہے:کمیت عمل اور کیفیت عمل لیکن قرآن کی نظر میں جو اہم اور بہترین عمل ہےوہ کیفیت عمل ہےنہ کہ کمیت عمل۔Quantity vs Quality کثرت عمل نہیں بلکہ احسن عمل درکار ہے۔ ابو علی ابن فوادائل ابن ایاد سے کہا گیا: اے ابو علی، احسن عمل کیا ہے؟ اس نے کہا: "اسے خالص کرلو اور اسے درست کرو۔کہا گیا: میں کیا خالص کروںاور کیا درست کروں؟ انہوں نے کہا: "اگر کام خالص ہو اور نیک نہ ہو تو اسے قبول نہیں کیا جاتا، اور اگر یہ صحیح ہے اور خالص نہیں ہے تو یہ قبول نہیں کیا جاتا ، یہاں تک کہ یہ خالصتانیک ہے۔" کہا گیا: اے ابو علی، وہ کیا ہے؟ کہا خالص وہ جو اللہ کے لیے ہو اور درست وہ جوسنت کے مطابق ہو۔
عمل دائمی ہو • دائمی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فاعل اس پر ہمیشہ قائم رہے اور اس کی پابندی کرے۔ برخلاف اس عمل کے جسے آدمی کبھی کرے اور کبھی نہ کرے۔ • ’’اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہوتا ہے جسے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو‘‘۔(متفق علیہ) • حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ان کے ہاں تشریف لائے۔ وہاں ایک عورت بیٹھی تھی۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ فلاں عورت ہے۔ اور پھر اس کی نمازوں کا ذکر کیا، مطلب یہ کہ عورت بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو۔ تم لوگ اتنی ہی عبادت کرو جتنی کر سکتے ہو۔ خدا کی قسم! اللہ کو کوئی اکتاہٹ نہیں ہوتی، مگر تم اکتا جاۓؤگے‘‘۔
نفع بخش کام مقدم ہے غیر نفع بخش پر! • کام کی ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نفع بخش ہو۔ پھر وہ جس قدر دوسروں کے لیے مفید ہوگا۔ • ’’لوگوں میں اللہ کو سب سے محبوب وہ لوگ ہیں جو ان کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہوں۔ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ تم ایک مسلمان کو خوش کرو، یا اس سے کوئی مصیبت دفع کرو، یا اس کا قرض ادا کرو، یا اس سے بھوک کو بھگاؤ۔ اگر میں اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی حاجت میں چند قدم چلوں یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کروں‘‘۔
وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ • العزیز وہ جو سب پر غالب ہو اور اسے کوﰃمغلوب نہ کر سکے • الغفور گناہوں اور عیببوں پر پردہڈالنے والا
آیت 3: الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ﴾ • مشاہدۂ کائنات کی دعوت • لفظ ’تَفٰوُتٌ‘ کے معنی فرق و اختلاف اور ناہمواری کے ہیں۔ اسی مضمون کو آگے لفظ ’فُطُوْرٌ‘ سے بھی تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی نقص و خلل کے ہیں۔ • آسمانوں کو اللہ تعالی نے ستونوں کے بغیر پیدا کیا ہے۔اس کے اندر دروازے ہیں جس سے مختلف کام لیے جاتے ہیں،معراج کے سفر میں نبی اکرمﷺان دروازوں سے اوپر آسمانوں میں تشریف لے گئے۔ • دوآسمانوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنازمین اور پہلے آسمان کے درمیان ہے۔
آیت 4: ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ﴾ • اتمام حجت کے لیے پھر دعوت دی کہ ایک ہی بار نہیں بلکہ باربار ناقدانہ نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر واپس آ جائے گی لیکن کہیں کوئی نقص یا خلل نہیں پا سکے گی۔ • آسمان نہایت وسیع اور خوبصورت چھت ہے جو اپنے قمقموں کے ساتھ جمالیاتی منظر پیش کرتی ہے۔ اس میں بے شمار اجرام فلکی ہیں لیکن ہر چیز اپنی جگہ موزوں ہے۔ نقص کی کسی جگہ کی بھی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔
آیت 5: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ﴾ ستارے ایک طرف آسمان کا پُرجمال منظر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف ان سے آگ کے شعلے ( شہاب) نکلتے ہیں جو آسمان کی طرف پرواز کرنے والے شیاطین کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کی مار ان پر پڑتی ہے۔
آیت 6: وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾اور جنھوں نے اپنے رب کا کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے! • کافر کون؟ • اللہ کو نہ مانے، اللہ کی نہ مانے، رسولوں کا منکر، قیامت اورجزاء و سزا کا انکاری • قیامت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کی تمام بنیادی صفات قدرت، عدل، رحمت اور ربوبیت کی نفی ہو جاتی ہے۔ • قرآن نے اسی بنیاد پر مشرکین کو جگہ جگہ کفار سے تعبیر کیا ہے حالانکہ وہ خدا کے منکر نہیں تھے۔
آیت 7: إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ﴾ جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ جوش مارتی ہوگی۔ • جہنم کے جوش غضب کی تصویر: اس کے اس غیظ و غضب کی وجہ یہی ہوگی کہ جن لوگوں نے بے پروا ہو کر زندگی گزاری انھوں نے بالکل آنکھیں اور کان بند کر کے زندگی گزاری۔ ورنہ اس دنیا میں نہ قیامت اور جزا و سزا کی نشانیوں کی کمی تھی اور نہ کبھی یہ منذروں سے خالی رہی۔ ایسے لوگوں ہرگز کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ • شَهِيق: گدھے کی آواز/ زفیر: گدھے کے ہینگنے کی ابتداﰃ آواز جو آہستہ سے اونچی ہونا شروع ہوتی ہے۔ • خود جہنم کی آواز ہوگی یا جہنم سے آ رہی ہوگی۔ • فَاَمَّا الَّـذِيْنَ شَقُوْا فَفِى النَّارِ لَـهُـمْ فِيْـهَا زَفِيْـرٌ وَّ شَهِيْقٌ﴾ ھود 106 پھر جو بد ہوں گے تو وہ آگ میں ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑی رہے گی۔ • اِذَا رَاَتْهُـمْ مِّنْ مَّكَانٍ بَعِيْدٍ سَـمِعُوْا لَـهَا تَغَيُّظًا وَّ زَفِيْـرًا﴾ فرقان 12جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو اس کے جوش و خروش کی آواز سنیں گے۔ • جہنم دیکھتی، بولتی اور سانس بھی لیتی ہے۔
جہنم ایک جیتی جگاتی حقیقت ہے • آپﷺ نے فرمایا:جو شخص میرا نام لے کر وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو۔ اور جو شخص اپنے ماں باپ کے سوا دوسروں کو اپنا ماں باپ کہے۔ جو غلام اپنے آقا کے علاوہ دوسروں کی طرف اپنی غلامی کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بنا لے۔ صحابہؓنے کہا یا رسول اللہ، کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی۔ ’’جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی‘‘ جب جہنم جہنمیوں کو دور سے دیکھے گی تو مارے غصے کے تھر تھرائے گی۔ اور شور و غل چیخ پکار اور جوش و خروش شروع کر دے گی۔ اور ایسی بھڑک رہی ہوگی کہ مارے غصہ کے پھٹ پڑے گی۔ • آپﷺ نے فرمایا:جہنم نے اللہ تعالیٰ سے کہا: یا اللہ میرا ایک ٹکڑا دوسرے کو کھا گیا۔ سو مجھے دو سانسوں کی اجازت دیجیے۔ پس اسے دو سانسوں کی اجازت دی گئی ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ سو تم جو سردی پاتے وہ جہنم کی سانس سے ہے۔ اور جو گرمی پاتے ہو تم وہ بھی جہنم کی سانس سے ہے۔ صحیح مسلم : ۶۱۷، صحیح بخاری:۳۲۶۰
آیت 8: تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ﴾قریب ہے کہ غضب سے پھٹ پڑے۔ جب اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا، ان سے اس کے داروغہ پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ یہ پوچھنا اور زیادہ ذلیل کرنے کے لیے ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے جھگڑا کیا۔ دوزخ نے کہا مجھ میں بڑے بڑے زور آور مغرور آئیں گے۔ اور جنت نے کہا مجھ میں ناتواں مسکین آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے دوزخ سے کہا تو میرا عذاب ہے جس کو چاہوں گا تجھ میں عذاب کروں گا۔ اور جنت سے کہا تو میری رحمت ہے۔ میں جس پر چاہوں گا تیرے ذریعہ رحم کروں گا۔ اور تم دونوں بھری جاؤ گی. صحیح مسلم:۷۱۷۲
آیت 9: قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَآءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ﴾ وہ جواب دیں گے کہ ایک خبردار کرنے والا آیا تو تھا لیکن ہم نے اسکو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری،تم لوگ بس ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہو ئے ہو! • منکرین کھسیانے ہوکر حسرت و ندامت سے جواب دیں گے کہہم نے ان کی بات نہ مانی برابر جھٹلایا۔
آیت 10: وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ اور وہ کہیں گے کہ ہم سننے والے یا سمجھنے والے ہوتے تو ہم دوزخ والوں میں سے نہ بنتے۔ • جہنمییہ اعتراف بھی کریں گے کہ اگر وہ بات کے سننے والے اور اپنی عقل سے کام لینے والے ہوتے تو حقیقت اتنی واضح تھی کہ وہ بھی ہدایت پر اور جنت کے حق دار ہوتے، جہنم والوں کے ساتھی نہ بنتے۔ • ابن عباسؓاس آیت کے معنی کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "کاش کہ ہم ہدایت کی بات سنتے یا سمجھ لیتے ، یا ان لوگوں کی طرح سن لیتے جو غور خوض کرتے ہیں، یا ان لوگوں کی طرح سمجھ لیتے جو فکر ونظر کے ذریعے سمجھ لیتے ہیں، تو کبھی بھی جہنم کے حقدار نہ ہوتے" اس سے پتہ چلتا ہے کہ کافر کو عقل نہیں دی گئی۔
عقل کا مقام • سیدنا ابن عمرؓفرماتے ہیں : میںنبی کریمﷺ کے ساتھ تھا اس دوران ایک انصاری شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور سلام کیا ،پھر اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ؟ تمام مومنوں میں سےکون سا مومن افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا۔ جس کا اخلاق اچھا ہو۔ پھر اس شخص نے پوچھا: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟ مؤمنین میں سے کون سا شخص زیادہ عقل مند اور دانا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا، وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُولَئِكَ الْأَكْيَاسُ۔ جو موت کو بہت یادکرنے والا اور اس کے بعد (آخرت میں جو کچھ ہونا ہے) کی تیاری کرنے والاہے، وہی عقلمند ہے۔سنن ابن ماجۃ: 4259
سفیان بن عیینہؒکہتے ہیں: "عقل مندی یہی نہیں ہے کہ اچھی بری چیز میں فرق کر لے، بلکہ عقلمند وہ ہے جو اچھائی کو پہچان کر اپنا لے، اور برائی کو دیکھ کر اُس سے بچ جائے" ایک سو بیس سال عمر ہونے کے بعد ایک آدمی سے کہا گیا: عقل مندی کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا: "جہالت، اور خواہشات پر تمہارا حلم غالب آجائے" کسی دیہاتی سے پوچھا گیا: عقل کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ تو اس نےکہا: "گناہوں سے بچنا" ابو حاتم کہتے ہیں کہ: "عقلمند افراد کی درجہ بندی میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا ہے" ابن قیمؒکہتے ہیں: "تمام لوگ بچپن والی عقل رکھنے میں مساوی ہیں، ہاں وہی دانشور اور عقلمند لوگوں کے مقام پر پہنچتا ہے جو حق کو علمی، عملی، اور معرفت کے انداز سے پہچان لیتا ہے"
عقل کا متضاد: حماقت / حُمق"یعنی بیوقوفی عقلمندی کا متضاد ہے۔ کچھ دانا لوگوں کا کہنا ہے کہ: "بیوقوف کو چھ چیزوں سے پہچانا جا سکتا ہے: • بلاوجہ غصہ میں آنا • غیر مناسب جگہ پر مال اڑانا • بلا فائدہ باتیں کرنا • ہر ایرے غیرے پر اعتماد کرنا • راز فاش کرنا • دوست دشمن میں فرق نہ کرنا • اور اپنے آپ کو دانشور تصور کرتے ہوئے جو دل میں آئے کہہ دینا